Wednesday, August 14, 2024
علم اور تقوی کے بارے میں غلط فہمی
علم اور تقوی کے بارے میں غلط فہمی
مسلمانوں کے زوال کی وجہ یہ نہیں کہ ان میں انفرادی تقوی نہیں ، تقوی تو ایسی چیز ہے کہ ایک شخص دینی علم کے بارے میں بالکل کورا بلکہ جہل کے مقام پر ہو سکتا ہے لیکن تقوی اور تزکیہ کے اعلی مقام پر فائز ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ تقوی کے لوازمات بالکل سادہ ہیں ۔۔۔۔ اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچانا اور نیکیوں میں پیش رفت ۔ اور یہ سوفٹ ویر پیدائش ہی سے ہر انسان کے اندر ودیعت ہوتا ہے ۔( فالھمھا فجورھا و تقواھا )
یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک جہاں مذہبی علم کے نام پر آپ کو جہل ہی جہل کا سامنا ہوگا آپ کو انتہای تقوی دار لوگ ملیں گے ۔ اس کے برعکس آپ کو انتہائ اعلی اذہان اور علمی طور انتہائ مضبوط اساس رکھنے والی شخصیات میں تقوی کا وہ کیلبر نظر نہیں آئے گا یا اس کا کلی فقدان نظر آئے گا ۔ اس کی مثال حالیہ وقتوں میں آکسفورڈ شعبہ اسلامی علوم کے ھیڈ ، جید عالم دین اور حسن البنا کے پوتے ڈاکٹر طارق رمضان کا واقعہ ہے ۔
علم کے ساتھ ایک اپنی انا اور تکبر آتا ہے جس سے بچنا اپنے آپ میں الگ سے ایک آزمائش ہے اور اس فیلڈ کے ماہرین کے مطابق باوجود کوشش کہ تکبر نہ بھی آئے تو کچھ نہ کچھ 'عجب' در ہی آتا ہے ۔ اکابر صوفیاء کے مطابق تمام تر مشقت کے باوجود رذائل نفس میں جو آخری چیز انسان کی شخصیات سے نکلتی ہے وہ 'حب جاہ' ہے۔ حب جاہ ایسی چیز ہے تکبر اور عجب جسکی جڑواں بہنیں ہیں ۔
قرآن میں بھی بار بار اس چیز کی نشاندہی کی گئ کہ رذائل نفس کیسے تقوی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور علم رکھنے کے باوجود بندہ کیسے اسکی گھمن گھیریوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔
ابلیس جن ہونے کے باوجود صرف اپنے اعلی علمی خصوصیات کی بنا پر فرشتوں کی مجلس میں شریک ہوتا تھا ۔ لیکن محض تکبر نے اسکے سارے علم اور سارے تقوی پر پانی پھیر دیا اور آخر میں راندہ درگاہ ہوا ۔
اہل کتاب اور خصوصا" یہود کے علما کا قرآن میں ذکر ہے کہ علم آ جانے کے باوجود محض انا اور تکبر کی وجہ سے انھوں نے دین کو فرقوں میں تقسیم کردیا ۔یعنی قرآن یہ واضح بتاتا ہے کہ فرقہ واریت کی جڑ میں انا ، ضد اور علمی تکبر پوشیدہ ہوتا ہے ۔
اس لیے اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ علم اور تقوی دو الگ چیزیں ہیں اور ضروری نہیں کہ جو شخص اعلی تقوی رکھتا ہو وہ اعلی علم کا بھی حامل ہو ۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی غلط العام ہے کہ جو تقوی دار اور پرہیزگار شخص دیکھتے ہم سمجھتے ہیں وہ ضرور قرآن و سنت کا بھی گہرائ سے علم رکھتا ہوگا ۔ اور اسکے الٹ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو دین کا گہرا علم رکھتا ہے وہ ضرور انتہائ متقی بھی ہوگا ۔
شاز ہی کسی شخصیت میں یہ دونوں خصوصیات ایک ہی درجے میں اکٹھی ہو پاتی ہیں ۔ یہی دین اور علم کا پیراڈاکس بھی ہے ۔ اور اسکو سمجھنا بہت ضروری بھی ہے ۔ تقوی کی بدولت نورانی چہرے حاصل کرنے والے آپ کو بالکل غلط علمی راہ پر ڈال سکتے ہیں اور گناہوں کی بدولت بے نور چہروں والے اعلی علمی درجات رکھ سکتے ہیں ۔ پاکستانی میں فرقہ واریت کی نجاست پھیلنے کی وجہ بھی اسی قسم کے کردار ہیں ۔
فرقہ واریت کا ہی شاخسانہ ہوتا ہے کہ ملکی ، معاشرتی اور قانونی سطح پر اقامت دین کا فریضہ ادا نہیں ہو پاتا ۔ اور جب یہ فرض ادا نہیں ہوتا تو اسی سے زوال آتا ہے ۔ اور مسلمانوں کی دنیا بھر میں موجودہ زوال کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے ۔
االلہ عالم بالصواب
(سید سعد عبداللہ )
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment